مشکوٰۃ شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نے کہ تم جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ مومن نہیں بنتے اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔میں تمہیں وہ تدبیر نہ بتادوں جس کو اختیار کرکے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو اور پھر فرمایا کہ آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔
ایک دوسری مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو سلام کرے۔ ایک دوسرے کو سلام کرنا سلامتی اور عافیت کی جامع ترین دعا ہے۔ آپ جب کبھی اپنے مسلمان بھائی سے ملتے ہوئے السلام علیکم کہتے ہیں تو اس کہ معنی یہ ہوا کرتے ہیں کہ خداوند کریم تمہیں ہر قسم کی سلامتی اور عافیت سے نوازے خدا تمہارے گھر بار کو سلامت رکھے تمہاری جان و مال سلامت رہے اللہ تمہارے اہل وعیال اور متعلقین کو سلامت رکھے تمہارا ایمان بھی سلامت رہے اور دین بھی۔ دنیا بھی سلامت رہے اور آخرت بھی‘ خدا تمہیں ان سلامتیوں سے بھی نوازے جو میرے علم میں ہیں اور ان سے بھی جو میرے علم میں نہیں ہیں۔
میرے دل میں تمہارے لیے خیرخواہی محبت اور خلوص کے جذبات ہیں اس لیے میری طرف سے گمان بھی نہ کرنا کہ میرے طرز عمل سے تمہیں کبھی دکھ ہوگا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ کہ ایک مسلمان السلام علیکم کہہ کر دوسرے مسلمان کو سلامتی اور عافیت کی تمام دعائیں دے دیتا ہے آپ اندازہ لگائیں کہ جب یہ الفاظ سمجھ کر شعور کے ساتھ اپنی زبان سے نکالتے ہیں تو مخاطب کے دل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔السلام علیکم کے الفاظ ادا کرکے اگر کسی بھائی کا آپ استقبال کرتے ہیں تو آپ یہ کہتے ہیں کہ خدا تجھے سلامتی اور عافیت سے نوازے جو عافیت کا سرچشمہ ہے جس کا نام ہی اسلام ہے اور وہی سلامتی اور عافیت پاسکتا ہے جس کو وہ سلامتی عطا فرمائے اور جس کو وہ سلامتی سے محروم کردے وہ اس جہان میں بھی سلامتی سے محروم اور اس جہان میں بھی سلامتی سے محروم۔سلام خداوند تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو خدا نے زمین میں زمین والوں کیلئے رکھ دیا ہے اس لیے فرمایا کہ اس کو زمین پر خوب پھیلاؤ۔
حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو فرشتوں کی جماعت کے پاس بھیجتے ہوئے یہ حکم دیا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو سلام کرو اور ان کے سلام کے جواب میں وہ جو دعا دیں تو اس کو غور سے سنو اور اس دعا کو محفوظ بھی رکھنا کیونکہ یہ تمہاری اور تمہاری اولاد کی دعا ہوگی۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں کے پاس پہنچے اور کہا السلام علیکم تو فرشتوں نے جواب میں السلام علیک ورحمۃ اللہ کہا یعنی رحمۃ اللہ کا اضافہ کردیا۔ (بخاری شریف)
قرآن حکیم نے فرمایا کہ جب فرشتے مومنوں کی روح کو قبض کرنے آتے ہیں تو السلام علیکم کرتے ہیں اسی طرح جنت کے فرشتے جنتیوں کوسلام کریں گے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ہر دروازے سے داخل ہو کر السلام علیکم کہیں گے۔ اہل جنت بھی ایک دوسرے کا استقبال انہی الفاظ سے کریں گے اور خداوند تعالیٰ کی طرف سے بھی ان کیلئے سلام اور رحمت کی صدائیں ہوں گی جیسا کہ سورہ یٰسین میں فرمایا گیا سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴿یٰسین۵۸﴾ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سلام کی کیا اہمیت ہے بدقسمتی سے آج ہم نے سلام کا استعمال بھی چھوڑ دیا ہے اور اگر ہم سلام کو لوگوں میں عام کردیں ہر فرد جب دوسرے سے ملے خواہ وہ دن میں سو مرتبہ ملے سلام کہے تو ہوسکتا ہے کہ جو آج ہم پر نحوست کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ خدا کی طرف سے سلامتی اور عافیت کا پیغام آئے اور ہم اس بھنور سے نکل جائیں جس میں آج ہم پھنسے ہوئے ہیں بلکہ دن بدن پھنستے ہی جارہے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائی سے ملے اور اس کو سلام کرے اور اگر درخت‘ دیوار اور پتھر کی اوٹ بیچ میں آئے اور پھر دوبارہ نظر آئے پھر سلام کرے خواہ وقفہ چند سیکنڈ کا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت حذیفہ بن سمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب دو مومن ملتے ہیں اور سلام کے بعد مصافحہ کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑجاتے ہیں جس طرح درخت سے سوکھے پتے۔ (طبرانی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں